دیوار میں امکان کا اک در کوئی کھولے
اوجھل ہے جو آنکھوں سے وہ منظر کوئی کھولے
اب شہر کے اندر بھی تو ہر روز ہے ہجرت
کیا ایسے میں باندھا ہوا بستر کوئی کھولے
رقصاں ہو تو پھر نیند سے اٹھنے نہیں دیتی
اس بادِ صبا کی ذرا جھانجھر کوئی کھولے
جب ان سنی ہر بات کے ہونے کا یقیں ہو
کیوں اپنی شکایات کا دفتر کوئی کھولے
آسیب کے آجانے سے کچھ پہلے عزیزو
ممکن ہو تو اس دل کا ہر اک گھر کوئی کھولے
اب شہر کے ہر شخص کی خواہش ہے یہ صائمؔ
جو باندھ کے رکھا ہے سمندر کوئی کھولے
No comments:
Post a Comment