یہ مرے جذب محبت کی پذیرائی ہے
وہ بھی کہنے لگے دیوانہ ہے سودائی ہے
ہر طرف تو ہے تری یاد ہے آہٹ تیری
تیری محفل سے تو اچھی مری تنہائی ہے
اس سے بہتر ہے کہ تجدید محبت کر لے
بے وفا بن کے بھی رہنا تری رسوائی ہے
شیشۂ جسم ہوا جاتا ہے ٹکڑے ٹکڑے
یہ قیامت ہے کہ ظالم تری انگڑائی ہے
ایسا بدلا ہے زمانہ کہ الٰہی توبہ
جو تماشا تھا وہی آج تماشائی ہے
مطمئن ہوں میں عمرؔ شیشے کے گھر میں رہ کر
پتھروں سے مری صدیوں کی شناسائی ہے
No comments:
Post a Comment