Urdu Deccan

Friday, September 23, 2022

اکرم سحر فارانی

یوم پیدائش 11 سپتمبر 1959

ناؤ طوفاں میں ہے ٹوٹے ہوئے پتوار کے ساتھ
دشمنی بھی ہے اَزل سے مری منجدھار کے ساتھ

راہِ منزل میں مرا عزم اکیلا تو نہیں
راستہ بھی ہے سفر میں مرے رہوار کے ساتھ

منزلیں اُس کے قدم چوم لیا کرتی ہیں
جو مسافر بھی چلے وقت کی رفتار کے ساتھ

آگ برسی تو پرندوں کے ٹھکانے بھی گئے
جل بُجھے گھونسلے جلتے ہوئے اشجار کے ساتھ

بیج نفرت کے کہاں باغ میں بوتا ہے کوئی
جھاڑیاں خود ہی اُگا کرتی ہیں اشجار کے ساتھ

شاہی دربار جو پہنچے وہ زباں بیچ گئے
کون پہنچا ہے وہاں جرأتِ اِظہار کے ساتھ

وقت کے شمر سے کہہ دو کہ خبردار رہے
جھُک نہیں سکتا یہ سر جائے گا دستار کے ساتھ

وعدہ تنہائی میں ملنے کا وفا ہو کیسے
دونوں جانب تو فرشتے ہیں گنہگار کے ساتھ

پوچھ کر حال سبھی دوست چلے جاتے ہیں
رات بھر کوئی نہیں جاگتا بیمار کے ساتھ

آئے کچھ دوست مرے دل کے مدینے میں نئے
یعنی دو چار مہاجر بھی ہیں انصار کے ساتھ

جان بھی ٹیکس میں دے دوں گا میں ہاروں گا نہیں
میں نے یہ شرط لگا رکھی ہے سرکار کے ساتھ

لوگ سمجھے مرے کمرے میں ہے موجود کوئی
میں نے تصویر لگا رکھی تھی دیوار کے ساتھ

یوں نبھائی ہے سحرؔ رسمِ وفا گُلشن میں
پھول جس طرح نبھاتا ہے کسی خار کے ساتھ

اکرم سحر فارانی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...