جنوں سکون خرد اضطراب چاہتی ہے
طبیعت آج نیا انقلاب چاہتی ہے
نہ آج تیری نظر سے برس رہا ہے نشہ
نہ میری تشنہ لبی ہی شراب چاہتی ہے
نہیں سرور مسلسل نباہ پر موقوف
مدام آنکھ کہاں لطف خواب چاہتی ہے
سنا رہا ہوں فسانہ تری محبت کا
یہ کائنات عمل کا حساب چاہتی ہے
وہ عزم ہائے سفر لا زوال ہوتے ہیں
حیات موت کو جب ہم رکاب چاہتی ہے
جھلس رہا ہے بدن دھوپ میں جوانی کی
یہ آگ زلف کا گہرا سحاب چاہتی ہے
حریف حسن و محبت ہو دیر تک شوکتؔ
نگار عمر وہ عہد شباب چاہتی ہے
No comments:
Post a Comment