ویرانیوں میں سبزہ اگاتی رہی ہوں میں
ہریالیوں کا روپ دکھاتی رہی ہوں میں
خون جگر سے سینچ کے بنجر قدم قدم
پتھر کے دل میں پھول کھلاتی رہی ہوں میں
اس کا فریب راس اسے آ گیا مگر
سچائیوں سے آنکھ ملاتی رہی ہوں میں
تیری نوازشیں بھی رہیں میری زندگی
اور تجھ کو آئنہ بھی دکھاتی رہی ہوں میں
اس کی نگاہ تکتی رہی مجھ کو غور سے
اور میٹھی چاندنی میں نہاتی رہی ہوں میں
زریںؔ اگرچہ چھڑ ہی گیا قصۂ وفا
تصویر بس وفا کی بناتی رہی ہوں میں
No comments:
Post a Comment