اب حسن و عشق کے بھی قصے بدل گئے ہیں
منزل تھی ایک لیکن رستے بدل گئے ہیں
کس پر یقین کیجے یہ دور مطلبی ہے
لگتا ہے خون کے بھی رشتے بدل گئے ہیں
آنکھیں بتا رہی ہیں ظاہر ہے حال دل کا
وہ بے وفا نہیں تھے کتنے بدل گئے ہیں
ہم جانتے ہیں پھر بھی پہچاننا ہے مشکل
کچھ دوستوں کے اتنے چہرے بدل گئے ہیں
ان کو پتہ تھا شاید اک دن لگے گی ٹھوکر
اچھا ہے وقت سے وہ پہلے بدل گئے ہیں
جب سے ملی ہے دولت آداب بھول بیٹھے
اب بات چیت کے بھی لہجے بدل گئے ہیں
ہے وقت کا تقاضہ چپ چاپ گھر میں رہئے
چاہت وفا محبت جذبے بدل گئے ہیں
معصومیت کہیں پر گم ہو گئی ہے اخترؔ
لگتا ہے شہر جا کر بچے بدل گئے ہیں
No comments:
Post a Comment