Urdu Deccan

Wednesday, September 21, 2022

ارشد جمال حشمی

یوم پیدائش05 سپتمبر 1965

خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 
اک نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

اس نے کیا کیا ستم نہ توڑے ہیں 
دل مرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

ٹوٹتا جا رہا ہے اک اک خواب 
سلسلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

رشتے ناطے تمام ٹوٹ گئے 
سر پھرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

پو پھٹی انگ انگ ٹوٹتا ہے
اور نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

لہریں آ آ کے ٹوٹ جاتی ہیں 
اک گھڑا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

دل کے دریا میں کیسا سنگ گرا 
دائرہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

ناؤ ٹوٹی دو نیم ہے پتوار 
حوصلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

دھاگا کچا سہی مگر ارشدؔ 
یوں بندھا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

ارشد جمال حشمی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...