راس آئے گی نہ الفت مجھے معلوم نہ تھا
ان سے ہو جائے گے فرقت مجھے معلوم نہ تھا
ان کو مجھ سے ہوئی نفرت مجھے معلوم نہ تھا
اتنی بدلی ہے طبیعت مجھے معلوم نہ تھا
ایک انکار میں یہ رشتۂ دل ٹوٹ گیا
اتنی نازک تھی یہ نسبت مجھے معلوم نہ تھا
چین آتا نہیں آ جاتا ہے جب ان کا خیال
فکر کھو دیتی ہے راحت مجھے معلوم نہ تھا
زندگی کھونا ہے دنیا سے یہ سودا کرنا
مرنا جینے کی ہے قیمت مجھے معلوم نہ تھا
نرم و نازک میں سمجھتا تھا انہیں گل کی طرح
خار بھی ہوتی ہے عورت مجھے معلوم نہ تھا
بزم ہستی سے مرے اٹھنے سے پہلے روحیؔ
تم ہی ہو جاؤ گی رخصت مجھے معلوم نہ تھا
تھے ہمیت کے لیے شکوہ غم ننگ حیات
مجھ کو مارے گی شرافت مجھے معلوم نہ تھا
بات جو میں نے بنائی وہ بگڑتی ہی گئی
ہے خراب اپنی یہ قسمت مجھے معلوم نہ تھا
ورنہ تکمیل تمنا کی نہ خواہش کرتا
زندگی کم ہے شباہتؔ مجھے معلوم نہ تھا
No comments:
Post a Comment