سر میں ہے تپاں طاقت جتنی ہے ابھی
پیچیدہ دھواں ہیں شان اتنی ہے ابھی
رہ رہ کہ یہ پوچھتی ہے ثابت قدمی
پسپا ہونے میں دیر کتنی ہے ابھی
اس ملک میں صدیاں ہوئیں آئے کہ ابھی
اس رات گریں گے ہم پہ پردے کہ ابھی
اکتاہٹ شور و غل سے کہتی ہے بتا
کچھ دیر میں اٹھیں گے یہاں سے کہ ابھی
نیچی تھی گرم تھی ہواؤں میں ابھی
جولاں تھی مثل خوں دعاوں میں ابھی
سینے میں مرے یار وفادار کی سانس
روشن ہو کر ملی نواؤں میں ابھی
تنہا نہیں جاں دادۂ کثرت ہوں ابھی
سچا ہوں تصویر کی صورت ہوں ابھی
افلاک کی کال کوٹھری کے پاتال
آنکھیں مری مت کھول حقیقت ہوں ابھی
جنگل تھرا اٹھا ہے سویا تھا ابھی
سنسان ہوا سے کوئی بولا تھا ابھی
ساکت گمبھیر فرش شب کے اوپر
لمبے قدموں سے کون گزرا تھا ابھی
No comments:
Post a Comment