غم کا گماں یقین طرب سے بدل گیا
احساس عشق حسن کے سانچے میں ڈھل گیا
ساتھ ان کے لے رہا ہوں میں گل گشت کے مزے
یہ خواب ہی سہی مرا جی تو بہل گیا
مجبور عشق چشم فسوں ساز سے ہوں میں
جادو مجھی پہ دوست کا چلنا تھا چل گیا
میں انتظار عید میں تھا عید آ گئی
ارمان دید دامن عشرت میں پل گیا
ہے برق جلوہ یاد مگر یہ نہیں ہے یاد
خرمن مرے غرور کا کس وقت جل گیا
پیمان عشق و حسن کی تجدید کے سوا
جو بھی خیال ذہن میں آیا نکل گیا
بڑھتے چلے ہیں آئے دن اسباب اضطراب
یادش بخیر آج کا وعدہ بھی ٹل گیا
منظورؔ کس زباں سے بتوں کو برا کہیں
ایماں ہمارا کفر کے دامن میں پل گیا
No comments:
Post a Comment