نہ جانے کون ہے جس کا انتظار مجھے
کسی بھی پہلو نہ ملتا ہے اب قرار مجھے
اگر وہ دوست ہے میرا تو دوریاں کیسی
اگر عدو ہے تو کرنے دے بے قرار مجھے
اگر ہے چاہ کوئی جرم تو سزا دینا
دل و دماغ پہ دے پہلے اختیار مجھے
میں تیری مانگ کو اپنے لہو سے بھر دوں گا
مگر ہے شرط ، محبت سے تو پکار مجھے
زمانے بھر کی خدایا اسے خوشی دے دے
جو کر رہا ہے زمانے میں سوگوار مجھے
مری حیات ، مسلسل غموں کی یورش ہے
ترا کرم ہے ، کیا تو نے شاہ کار مجھے
ہے اعتراف کہ میں ہوں گناہ گار مگر
نہ کرنا روزِ قیامت تو شرم سار مجھے
اسماعیل ظفر
No comments:
Post a Comment