کہیں پہ ریت ، کہیں پر ہوں آب جیسا میں
نظر سے حدِّ نظر تک سراب جیسا میں
مرے وجود سے لپٹی ہیں رفعتیں میری
تمھارے شہر میں خانہ خراب جیسا میں
شعاعیں ڈھونڈتی رہتی ہیں میری تعبیریں
اندھیری رات کی پلکوں پہ خواب جیسا میں
مری ہی آگ مجھے روز و شب جلاتی ہے
اسی لیے تو کھلا ہوں گلاب جیسا میں
ہوائے غم نے اڑایا ورق ورق مجھ کو
فضائے دل میں ہوں بکھری کتاب جیسا میں
No comments:
Post a Comment