فرش پر جیسے شکستہ بتِ پندار گرے
اس طرح رات کو سورج کے پرستار گرے
جس کو کشکولِ تمنا میں سجا رکھا تھا
وہ نگینے مری پلکوں سے کئی بار گرے
ایک کہرام سا مچ جاتا ہے گھر کے اندر
روح کے سامنے جب جسم کی دیوا رگرے
خود نمائی سے بچو یہ ہے خودی کی دشمن
جس کی تقلید سے انسان کا کردار گرے
باغباں ہی نہیں پنچھی کو بھی ہوتا ہے ملال
پیڑ جب کوئی گلستاں کا ثمردار گرے
بخش دیتا ہے گناہوں کو یقیناً اس کے
ہو کے شرمندہ جو سجدے میں گنہہ گار گرے
دیکھ کر میرے تخیل کی بلندی اکثر
کچھ کبوتر گرے ، شاہیں گرے ، تغدار گرے
اس طرح سے گرے محبوب مرے دل کا مکاں
جیسے آندھی میں کوئی رات کی دیوار گرے
No comments:
Post a Comment