سکوں ہمیں نہیں حاصل نہیں قرار آئے
خزاں کا ٹھہرا ہے موسم کہاں بہار آئے
کبھی ٹہل کے جو آئے پرانی گلیوں سے
قسم خدا کی بہت ہو کے بیقرار آئے
طویل ہے یہ شبِ غم بسر نہیں ممکن
نہ جانے کیوں وہ تصور میں بار بار آئے
لکھا ہے جسکی بھی قسمت میں جو، ملے اسکو
گلاب حصےکسی کے ، کسی کے خار آئے
زمانے ہجر نہ پلٹا نہ وصلِ یار ہوا
نصیب میں ہے میرے حصّے انتظار آئے
No comments:
Post a Comment