تو مسیحا ہے تری ایک ادا کافی ہے
جاں بہ لب کو ترے دامن کی ہوا کافی ہے
جب بھی یاد آؤں تصور میں تصور کرنا
مجھ سے ملنے کے لئے اتنا پتہ کافی ہے
میری نظروں کی خطا کم ہے ترے سر کی قسم
میرے دلبر ترے جلوؤں کی خطا کافی ہے
تیری فرقت نے جوانی کا مزہ چھین لیا
چاہنے والے کو بس اتنی سزا کافی ہے
کام آتے نہیں تا عمر یہ مٹی کے چراغ
آپ کی یاد کا بس ایک دیا کافی ہے
ساری دنیا کی دعائیں میں کہاں رکھوں گا
میری بخشش کے لئے ماں کی دعا کافی ہے
پھول کی طرح کھلے ہیں ترے زخموں کے گلاب
اور کیا چاہئے دلکشؔ یہ دوا کافی ہے
مصطفیٰ دلکش
No comments:
Post a Comment