تجھ سے منسوب سو بہانے ہیں
لوگ کتنے ترے دوانے ہیں
فہم و ادراک کے دریچے کهول
درد کے زاوئے سجانے ہیں
وقت کے دائرے سے ہوں آزاد
قید مجه میں کئی زمانے ہیں
فاصلے کم کرو دعاوں سے
ہاته ٹوٹے بهی ہو اٹهانے ہیں
ٹوٹنے دے صدا صدا پایل
رقص کے دائرے گهمانے ہیں
یوں اندهیروں سے لڑ نہ پاو گے
آو مل کر دئے جلانے ہیں
دیکه تشہیر حرف رسوائی
خواب آنکهوں سے یا چرانے ہیں
تم حقیقت مرے جنوں کی ہو
رہ نوردی یہ سب بہانے ہیں
ہجرتیں کب تلک یہ آوارہ
غم جو اتنے کہیں بسانے ہیں
اب کے موج سخن پہ واہ شیداؔ
میر کے درد کے زمانے ہیں
No comments:
Post a Comment