طلب کے ساتھ اگر بے خودی نہیں ہوتی
قسم خدا کی خدا آگہی نہیں ہوتی
جسے نصیب نہ ہو آنسوؤں کی تابانی
شب فراق وہ تاروں بھری نہیں ہوتی
ترا ستم بھی نوازش ہے میرے دل کے لئے
تری خوشی سے مجھے کیا خوشی نہیں ہوتی
رہ حیات کو روشن کرے ہزار خرد
بغیر دل کے جلے روشنی نہیں ہوتی
کسی کے پیار کا نفرت سے دیجئے نہ جواب
مرے حضور! محبت بُری نہیں ہوتی
سنا تھا ہم نے مگر دل لگا کے دیکھ لیا
بتوں میں خوئے وفا واقعی نہیں ہوتی
سلگ رہے ہیں نشیمن مگر یہ کیا ہے اثر
چمن میں پھر بھی کہیں روشنی نہیں ہوتی
No comments:
Post a Comment