کچھ خواب بیچنے ہیں خریدار چاہیے
ہم بک رہے ہیں اب ہمیں بازار چاہیے
اس بے سکون سے فلکِ بے ستوں تلے
رہنے کو پائیدار سا گھر بار چاہیے
اس درد کی گلی میں بڑی تیز دھوپ ہے
سستانے کے لیے کہیں چھتنار چاہیے
صوفیہ احمد
پھوٹی ہے بطنِ شبِ دیجور سے رقصاں کرن
کٹ گیا دکھ کا سفر شاید سحر ہونے کو ہے
بے یقینی لامکانی عمر بھر ڈستی رہی
ہے فضا کچھ دوستانہ اپنا گھر ہونے کو ہے
تھک گیا صاحبانِ سنگ کا لشکر بھی اب
دشمنی کی آخری حد مختصر ہونے کو ہے
No comments:
Post a Comment