بات بن جانے کا امکان بھی ہو سکتا ہے
مسئلہ کہنے سے آسان بھی ہو سکتا ہے
آپ جس بات کو معمولی سمجھ بیٹھے ہیں
کوئی اس بات پہ حیران بھی ہو سکتا ہے
ایک سرگوشی تناور بھی تو ہو سکتی ہے
تیری ہر بات کا اعلان بھی ہو سکتا ہے
گمرہی میں جو مری راہبری کو آیا
خود وہ بھٹکا ہوا انسان بھی ہو سکتا ہے
پیش بندی اسے تم کہتے ہو میری لیکن
بخدا یہ مرا وجدان بھی ہو سکتا ہے
تم نے لفظوں میں جو ٹانکا ہے نگینے کی طرح
وہ کسی اور کا فرمان بھی ہو سکتا ہے
میرے رستے ہی مری تجربہ گاہیں ہیں قمرؔ
گرچہ ان راہوں میں نقصان بھی ہو سکتا ہے
No comments:
Post a Comment