کچھ بھی تمام زیست کمایا تو ہے نہیں
میرا کسی کے پاس بقایا تو ہے نہیں
میرا یہ رنگ اور ہے میرا یہ ڈھنگ اور
میری غزل میں لفظ پرایا تو ہے نہیں
کچھ بھی گلہ نہیں ہے مجھے بےوفاٶں سے
سارے ملے“ کسی نے رلایا تو ہے نہیں
کوچہء خوش جمال میں اپنی انا سمیت
سب کچھ لُٹا دیا ہے بچایا تو ہے نہیں
مجھ سے جدا ہوا ہے مگر یہ بھی ٹھیک ہے
اُس نے کسی طرح سے بھلایا تو ہے نہیں
خود آ گیا ہے سارے زمانے کو چھوڑ کر
میں تو اُسے ملا ہوں منایا تو ہے نہیں
دنیا غلط خفا ہے مرے دوست سے اسد
میرے پیام پر بھی وہ آیا تو ہے نہیں
اسد اعوان
No comments:
Post a Comment