خوبصورت ہیں آنکھیں تیری ، رات کو جاگنا چھوڑ دے
خود بخود نیند آ جائے گی ، تُو مُجھے سوچنا چھوڑ دے
تیری آنکھوں سے کلیاں کھِلیں ، تیرے آنچل سے بادل اُڑیں
دیکھ لے جو تیری چال کو ، مور بھی ناچنا چھوڑ دے
تیری آنکھوں سے چھلکی ہوئی ، جو بھی اِک بار پی لے اگر
پھِر وہ میخوار اے ساقیا ، جام ہی مانگنا چھوڑ دے
اے خوشی ایک پَل کو سہی ، میں کبھی تُجھ سے مل تو سکوں
میرے گھر سے کہاں جائے گی ، کُچھ تو اپنا پتہ چھوڑ دے
زندگی ہے مُسلسل سفر ، سب کی ہے ایک ہی رہگُزر
ایک ہی جب ہے سب کی ڈگر ، کیوں کوئی راستہ چھوڑ دے
میری آنکھوں میں رہتا ہے تُو ، تیری آنکھوں میں رہتا ہوں میں
صِرف مِحسوس کر لے مُجھے ، آنکھ سے دیکھنا چھوڑ دے
No comments:
Post a Comment