الفت کو دل میں رکھ کے نفرت کو اب بھلا دو
جو بھی گلے ہیں جاناں وہ آج سب بھلا دو
عشق مجازی میں تم اتنے بھی کھو نہ جاؤ
ایسا نہ ہو کہ اک دن اپنا ہی رب بھلا دو
وعدے نہیں نبھاتے تو مجھ کو شک ہے اب تو
اس کا ہے کیا بھروسہ تم مجھ کو کب بھلا دو
اس دن یقیں کروں گا الفت پہ میں تمہاری
غیروں کو اپنے دل سے تم بھی تو جب بھلا دو
جب پیار تم کسی کا پورا ہی آزما لو
شکوے جو اس سے تھے وہ لازم ہے سب بھلا دو
انساں نہیں فرشتہ غلطی کا وہ ہے پتلا
توبہ سے غلطیاں تم اے یار سب بھلا دو
مصروف ہیں صنم جی کچھ دن جو آج سے ہی
کہتے ہیں نور مجھ کو کچھ وقت اب بھلا دو
نور احمد محمود
No comments:
Post a Comment