اک شہزادہ بھیس بدل کر ایسے محل میں آتا ہے
ذکر تمہارا جیسے جاناں میری غزل میں آتا ہے
حیراں حیراں کھویا کھویا پاگل پاگل بے کل سا
جانے کس کو ڈھونڈنے چندا جھیل کے جل میں آتا ہے
آنکھوں میں دیدار کا کاجل میں بھی لگا کر جاتی ہوں
وہ بھی اکثر ڈھونڈنے مجھ کو تاج محل میں آتا ہے
گاہے اماوس کی راتوں میں گاہے چاندنی راتوں میں
اک غمگیں افسردہ سایہ شیش محل میں آتا ہے
جانے کہاں سے اتنے پرندے شاخوں پر آ جاتے ہیں
کھٹا میٹھا البیلا رس جوں ہی پھل میں آتا ہے
جس کو سن کر دل بھر آئے آنکھیں بھی نم ہو جائیں
ایسے شعروں کی شرکت سے حسن غزل میں آتا ہے
آ ریحانہؔ اس سے پوچھیں ماضی کی روداد حسیں
جو چھوٹی سی کشتی لے کر شام کو ڈل میں آتا ہے
No comments:
Post a Comment