یوم پیدائش 21 اکتوبر 1964
آئینے سے سارے چہرے گم ہوئے
میری یادوں کے خزانے گم ہوئے
منظروں سے رونقیں جاتی رہیں
وہ سبھی موسم سہانے گم ہوئے
بھیڑ ہے اور بھیڑ کی تہذیب کیا
بھیڑ میں انسان سارے گم ہوئے
دن میں سائے خاک پر تڑپا کئے
رات میں وہ بھی بچارے گم ہوئے
زندگی کی داستاں ہے مختصر
آئے ہم، رستے سنوارے، گم ہوئے
حسرتوں کی دھول نظریں کھا گئی
راہ میں کیا کیا نظارے گم ہوئے
وقت کی رفتار میں بچتا بھی کیا
زندگی کے سب نگینے گم ہوئے
تیر کر ساحل پہ آئے وہ بچے
ورنہ مرشد سب سفینے گم ہوئے
No comments:
Post a Comment