کسی کی آنکھ کا قطرہ کنول میں رکھا ہے
غزل کا حسن مزاج- غزل میں رکھا ہے
شعور شعر مرا عشق جانتا ہی نہیں
یہ دل کا شور دماغی خلل میں رکھا ہے
میں اور صبر کے کس پل صراط سے گزروں
کسی نے آج کے وعدے کو کل میں رکھا ہے
وہ اک گلاب کی ساعت چبھن چبھن گزری
وصال زیست کا لمحہ اجل میں رکھا ہے
یہ ذکر و فکر کی دنیا اسی سے روشن ہے
بس اک خلوص کا جذبہ عمل میں رکھا ہے
یہ راگ وہ ہے کہ پتھر پگھلنے لگتے ہیں
لہو کے رقص کو طول امل میں رکھا ہے
کھڑا ہے شوق بصارت لیے بصیرت تک
شکستہ خواب کا سرمہ کھرل میں رکھا ہے
No comments:
Post a Comment