Urdu Deccan

Friday, October 28, 2022

اشہد کریم

یوم پیدائش 23 اکتوبر 1975

کسی کی آنکھ کا قطرہ کنول میں رکھا ہے
غزل کا حسن مزاج- غزل میں رکھا ہے

شعور شعر مرا عشق جانتا ہی نہیں
یہ دل کا شور دماغی خلل میں رکھا ہے

میں اور صبر کے کس پل صراط سے گزروں
کسی نے آج کے وعدے کو کل میں رکھا ہے

وہ اک گلاب کی ساعت چبھن چبھن گزری
وصال زیست کا لمحہ اجل میں رکھا ہے

یہ ذکر و فکر کی دنیا اسی سے روشن ہے 
بس اک خلوص کا جذبہ عمل میں رکھا ہے

یہ راگ وہ ہے کہ پتھر پگھلنے لگتے ہیں
لہو کے رقص کو طول امل میں رکھا ہے

 کھڑا ہے شوق بصارت لیے بصیرت تک 
شکستہ خواب کا سرمہ کھرل میں رکھا ہے

اشہد کریم



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...