ہر ایک زاویہ سے سمٹ کر بتائے گا
کیا لذتِ نظر ہے یہ منظر بتائے گا
نیزه بتائے گا نہ تو خنجر بتائے گا
دریا کہاں ہے پیاس کا دفتر بتائے گا
اب تک مِلا ہے جو بھی مقدر کی بات تھی
اب جو مِلے گا وہ بھی مقدر بتائے گا
یہ بھی ہے کوئی گھر کہ ہوا بھی نہیں نصیب
کہتے ہیں گھر کِسے کوئی بے گھر بتائے گا
سورج کو آ تو جانے دو اپنے سروں کے بیچ
سایہ ہے کِس کا کِس کے برابر بتائے گا
ظل الٰہی دھوپ سے کیسے بچیں گے اب
صحرا کی تپتی ریت پہ لشکر بتائے گا
سوئی ہوئی کتاب کے اوراق جاگ اٹھے
یہ بات اب تو وقت ہی پڑھ کر بتائے گا
بھوکا سہی کسان کی عزت کا ہے سوال
اپنی زمیں کو کیسے وہ بنجر بتائے گا
بجھتی ہے کیسے پیاس بزرگوں کے نام پر
بچہ ہمارا زہر کو پی کر بتائے گا
اپنے لہو کے بہنے کا اِلزام کِس کو دوں
کِس نے کیا ہے قتل مرا سر بتائے گا
کتنے بدن کا خون زمیں پی چکی مجاز
پورس بتائے گا کہ سکندر بتائے گا
No comments:
Post a Comment