Urdu Deccan

Wednesday, October 26, 2022

نرجس افروز زیدی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1946

اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے 
ہے چھاؤں میں جس کی وہ شجر کاٹ رہا ہے 

کاٹا تھا کبھی میں نے سفر ایک انوکھا 
اک عمر سے اب مجھ کو سفر کاٹ رہا ہے 

تم ڈرتے ہو آ جائے نہ بستی میں درندہ 
مجھ کو تو کوئی اور ہی ڈر کاٹ رہا ہے 

پھیلا ہے بہت دور تلک مجھ میں بیاباں 
ڈستا ہے دریچہ مجھے در کاٹ رہا ہے 

اس شہر میں راس آتی نہیں آئنہ سازی 
لیجے وہ مرا دست ہنر کاٹ رہا ہے 

ہو جائے کہیں قد میں نہ کل اس کے برابر 
اس خوف سے وہ بھائی کا سر کاٹ رہا ہے 

ہر ایک سے آتی ہے بساند اپنی غرض کی 
دل کس کے رویے کا ثمر کاٹ رہا ہے 

نرجس افروز زیدی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...