خزاؤں میں تجھے پھولوں کی رانی لکھ رہا ہوں میں
بہاروں کو ترا عہدِ جوانی لکھ رہا ہوں میں
تری یادیں جو لکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے کوئی اپنی ہی کہانی لکھ رہا ہوں میں
فریبِ جستجو ہے یا اسے ذوقِ نظر سمجھوں
جو دانستہ سرابوں کو بھی پانی لکھ رہا ہوں میں
ذرا سا مسکرا کر تم بڑھا دو حوصلہ میرا
کہ چہرۂ خزاں پر گلفشانی لکھ رہا ہوں میں
یہ دنیا جو بھی کہتی ہے کہے اس کا کسے ڈر ہے
نہیں تیرا کہیں بھی کوئی ثانی لکھ رہا ہوں میں
کوئی تو ہوگی مجبوری کوئی تو ہے سبب آخر
کہ تیرے ہر ستم کو مہربانی لکھ رہا ہوں میں
وہی پر کیف لمحے جو گذارے تیری قربت میں
انہی لمحوں کو اپنی زندگانی لکھ رہا ہوں میں
گل و غنچہ ،صبا خوشبو، کرن شبنم، سحر نغمہ
یہ سب تیرے سراپا کے معانی لکھ رہا ہوں میں
بسا ارشاد یوں آنکھوں میں وہ اک پھول سا چہرہ
کہ زخموں کو سکونِ زندگانی لکھ رہا ہوں میں
No comments:
Post a Comment