Urdu Deccan

Sunday, October 30, 2022

ارشاد جالندھری

یوم وفات 30 اکتوبر 2015

خزاؤں میں تجھے پھولوں کی رانی لکھ رہا ہوں میں
بہاروں کو ترا عہدِ جوانی لکھ رہا ہوں میں

تری یادیں جو لکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے کوئی اپنی ہی کہانی لکھ رہا ہوں میں

فریبِ جستجو ہے یا اسے ذوقِ نظر سمجھوں
جو دانستہ سرابوں کو بھی پانی لکھ رہا ہوں میں

ذرا سا مسکرا کر تم بڑھا دو حوصلہ میرا
کہ چہرۂ خزاں پر گلفشانی لکھ رہا ہوں میں

یہ دنیا جو بھی کہتی ہے کہے اس کا کسے ڈر ہے
نہیں تیرا کہیں بھی کوئی ثانی لکھ رہا ہوں میں

کوئی تو ہوگی مجبوری کوئی تو ہے سبب آخر
کہ تیرے ہر ستم کو مہربانی لکھ رہا ہوں میں

وہی پر کیف لمحے جو گذارے تیری قربت میں
انہی لمحوں کو اپنی زندگانی لکھ رہا ہوں میں

گل و غنچہ ،صبا خوشبو، کرن شبنم، سحر نغمہ
یہ سب تیرے سراپا کے معانی لکھ رہا ہوں میں

بسا ارشاد یوں آنکھوں میں وہ اک پھول سا چہرہ
کہ زخموں کو سکونِ زندگانی لکھ رہا ہوں میں

ارشاد جالندھری


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...