یہ عہد چھوڑے گا اپنی نشانیاں کیا کیا
سُنیں گے لوگ ہماری کہانیاں کیا کیا
نہ جانے کیسے تھے وہ سب مقامِ عارض و لب
جہاں پہ خاک ہوئی ہیں جوانیاں کیا کیا
ہمارے قتل پہ سب نوحہ خواں بُلائے گئے
ستم کے بعد ہوئیں مہربا نیاں کیا کیا
ترے قریب کبھی دل کا حال یہ تو نہ تھا
بچھڑ کے تُجھ سے ہوئیں بد گمانیاں کیا کیا
ہمیں تو تنگیِ داماں کی داد بھی نہ ملی
سُنی تھیں ہم نے تری مہربانیاں کیا کیا
جو دیکھنا ہو تو آ ئو چراغِ شام کے بعد
دکھائیں اشکوں کی ہم بھی روانیاں کیا کیا
شکست وریخت کےآگے بھی مرحلے ہیں کئی
کروگے شیشہ گرو نوحہ خوانیاں کیا کیا
No comments:
Post a Comment