محبت میں ایسا روا تو نہیں نا
وفاؤں کا بدلہ جفا تو نہیں نا
پرستش کو میری وہ سمجھے تو کیسے
وہ ماٹی کا بت ہے خدا تو نہیں نا
وہ چلمن کو پیچھے ہٹا کر ہنسے گا
یہ ممکن ہے لیکن.... ہوا تو نہیں نا
یہ کہہ کر فسانہ سمیٹا ہے اس نے
جدائی کا مطلب.. جدا تو نہیں نا
تغیر.... تقاضا ہے فطرت کا لیکن
جو غنچے جلا دے صبا تو نہیں نا
میں انجم اسے بھول جاؤں تو کیسے
چھنے جو لبوں سے دعا تو نہیں نا
انجم رانا
No comments:
Post a Comment