سنے گا کون یہاں میری ایک ذات کا شور
ہے میرے چاروں طرف بس توقعات کا شور
یہ اور بات کہ باہر بہت خموشی ہے
مرے وجود میں پنہاں ہے کائنات کا شور
میں دن کے شور سے محفوظ تو نکل آیا
مگر میں جاؤں کہاں سامنے ہے رات کا شور
صدائے فکر کو خدشہ ہے، ایک ہی خدشہ
اسے دبا کے نہ رکھ دے یہ "فاعلات" کا شور
پتہ چلا کہ یہی آخری حقیقت ہے
بس ایک ہچکی میں ضم ہو گیا حیات کا شور
مجھے بچائو! کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے صباؔ
مرے وجود کے ملبے پہ سانحات کا شور
No comments:
Post a Comment