جتنی مہلت ملی، ہے غنیمت یہاں
ساٹھ، پینسٹھ کہ ستر برس، خوش رہو
جو ملا جس قدر بھی ملا خوب ہے
مال و دولت کی چھوڑو ہوس، خوش رہو
کوئی گل تم کو سمجھے یا موتی کوئی
یا ہی سمجھے کوئی خار و خَس، خوش رہو
لاکھ دنیا تمہاری مخالف رہے
تم نہ ہونا مگر ٹس سے مَس، خوش رہو
عشق کا بھی قوی وہ ہی دستور ہے
ہے جو دستورِ قید و قفس، خوش رہو
No comments:
Post a Comment