جب تصور میں وہ بادیدۂ تر آتے ہیں
کیسے موتی مرے دامن میں نظر آتے ہیں
وہ بنا دیتے ہیں ہر دشت کو رشکِ گلزار
کوئے جاناں سے جو اک بار گزر آتے ہیں
زیست دشوار سہی غم سے گراں بار سہی
ہم کو مر مر کے بھی جینے کے ہنر آتے ہیں
منظر عباس نقوی
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...
No comments:
Post a Comment