Urdu Deccan

Tuesday, November 1, 2022

دتا تریہ کیفی

یوم پیدائش 01 نومبر 1955

اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے 
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے 

اک شکل ہے تفنن طبع جمال کی 
اس سے زیادہ کچھ نہیں دنیا کہیں جسے 

خمیازہ ہے کرشمہ پرستئ دہر کا 
اہل زمانہ عالم عقبیٰ کہیں جسے 

اک اشک ارمیدۂ ضبط غم فراق 
موج ہوائے شوق ہے دریا کہیں جسے 

باوصف ضبط راز محبت ہے آشکار 
عقدہ ہے دل کا عقد ثریا کہیں جسے 

برہم زن حجاب ہے خود رفتگی حسن 
اک شان بے خودی ہے زلیخا کہیں جسے 

عکس صفائے قلب کا جوہر ہے آئینہ 
وارفتۂ جمال خود آرا کہیں جسے 

رم شیوہ ہے صنم تو ہے رم آشنا یہ دل 
حاصل ہے مجھ کو عیش مہیا کہیں جسے 

سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں دہر کا وجود 
کیفیؔ یہ بات وہ ہے معما کہیں جسے

دتا تریہ کیفی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...