یوم پیدائش 29 جنوری 1999
دیکھا جو مجھ کو پیاس کا نقشہ لئے ہوئے
گھر کر گھٹائیں آ گئیں دریا لئے ہوئے
نطق فشاں سے حد سماعت جھلس گئی
شعلہ بیاں سا تھا کوئی لہجہ لئے ہوئے
دیکھو تو کیا عجب ہے سواری قتیل کی
چلتا ہے سر لعیں سر نیزہ لئے ہوئے
اک جشن عالی شان میں بھوکا تمام رات
طعنے بٹورتا رہا کاسہ لئے ہوئے
آتی تھیں چیخنے کی صدائیں زمین سے
جب میں چلا تھا پاؤں میں چھالا لئے ہوئے
تشنہ لبی کی آبلہ پائی کا فیض ہے
کانٹے کھڑے ہیں راہ میں دریا لئے ہوئے
پھر یوں ہوا کہ شمر ستمگر کی لاش کا
منقار میں تھا گوشت پرندہ لئے ہوئے
ہوتا میں دور پانی سے تشنہ لبی کے ساتھ
ساحل کھڑا ہے دل میں تمنا لئے ہوئے
دریا سے مشت خاک بھی اٹھی نہیں بلال
نیزے پہ دشت آ گیا پیاسا لئے ہوئے
بلال سرسوی
No comments:
Post a Comment