یوم پیدائش 29 جنوری 1964
اجنبی رخ، آئینہ بھی اجنبی
زندگی کا فلسفہ بھی اجنبی
شہر بے معنی ہر اک رشتہ فضول
اس سے میرا رابطہ بھی اجنبی
جانے موسم ایسا کیسے ہو گیا
پہلا بھی تھا دوسرا بھی اجنبی
اجنبیت ہے غضب کا ذائقہ
ہے ہمارا مدعا بھی اجنبی
مختلف ہیں آدمی کے رنگ و بو
منظروں کا سلسلہ بھی اجنبی
سوچنا، لکھنا، ہر اک شب جاگنا
میرا تو ہے راستہ بھی اجنبی
گہری کھائی رات کی پھیلی ایاغ
ہو گیا بوڑھا دیا بھی اجنبی
جوثر ایاغ
No comments:
Post a Comment