منزل پہ پہنچ کر بھی منزل نہیں پاتے ہو
تم کیسے مسافر ہو رکتے ہو نہ جاتے ہو
آئے نہ عیادت کو جب سانس تھی کچھ باقی
مرنے پہ عقیدت کے کیوں پھول چڑھاتے ہو
پہلے مری نفرت پر مائل بہ کرم تھے تم
اب میری محبت پر برہم نظر آتے ہو
مے نوشی کا پھر مجھ پر الزام نہ آ جائے
آنکھوں میں لئے مستی کیوں سامنے آتے ہو
عنبرؔ تو ازل سے ہی رسوائے زمانہ ہے
کیوں اور اسے اپنی نظروں سے گراتے ہو
No comments:
Post a Comment