غم کو اس طرح سے چھپاتے ہیں
اشک پی پی کے مسکراتے ہیں
جن کو ہم پھول پیش کرتے ہیں
سنگ ہم پر وہی چلاتے ہیں
ایک رخ سے نقاب اٹھتے ہی
کتنے چہرے نظر میں آتے ہیں
زہر پیتے ہیں مسکرا کر ہم
رشتۂ درد یوں نبھاتے ہیں
کیوں کسی سے کریں گلہ شکوہ
ہم تو دانستہ زخم کھاتے ہیں
کوئی پوچھے گا آج نیلوفرؔ
موت پر اشک سب بہاتے ہیں
No comments:
Post a Comment