تماشا زندگی کا روز و شب ہے
ہماری آنکھوں کو آرام کب ہے
چمکتی ہے تمنا جگنوؤں سی
اندھیری رات میں رونق عجب ہے
ضرورت ڈھل گئی رشتے میں ورنہ
یہاں کوئی کسی کا اپنا کب ہے
زباں ہی تیرا سرمایہ ہے لیکن
عطاؔ خاموش یہ جائے ادب ہے
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...
No comments:
Post a Comment