لبوں کے حصے میں آئی ہنسی طلاق شدہ
ہمارے ساتھ ہے اک زندگی طلاق شدہ
حلالہ کر کے مرے پاس پھر چلی آئی
تُمھاری یاد ہے جیسے کوئی طلاق شدہ
براہِ راست دکھوں سے ہمارا رشتہ ہے
کہیں کہیں پہ ملی ہے خوشی طلاق شدہ
تُمھارے جانے سے ویران ہو گیا سب کچھ
ہر اک گلی لگی اس شہر کی طلاق شدہ
کبھی نکال چکا تھا میں جِس اداسی کو
دوبارہ آگئی گھر میں وہی طلاق شدہ
نہ سرد سرد ہوائیں نہ چاند تارے ہیں
سیاہ رات بھی مجھ کو لگی طلاق شدہ
سلیم تیرہ شبی کو یہی شکایت ہے
تمھارے جسم میں ہے روشنی طلاق شدہ
No comments:
Post a Comment