یوم پیدائش 30 نومبر 1963
ہم نے ہونٹوں پہ تبسم کو سجا کر دیکھا
یعنی زخموں کو پھر اک بار ہرا کر دیکھا
ساری دنیا میں نظر آنے لگے تیرے نقوش
پردہ جب چشم بصیرت سے اٹھا کر دیکھا
دور پھر بھی نہ ہوئی قلب و نظر کی ظلمت
ہم نے خوں اپنا چراغوں میں جلا کر دیکھا
اپنا چہرہ نظر آیا مجھے اس چہرے میں
اس کے چہرے سے جو چہرے کو ہٹا کر دیکھا
وہ تعلق تری اک ذات سے جو تھا مجھ کو
اس تعلق کو بہر حال نبھا کر دیکھا
برف ہی برف نظر آتی ہے تا حد نظر
زندگی ہم نے تری کھوج میں جا کر دیکھا
جاوداں ہو گیا ہر نغمۂ پر درد مرا
میرے ہونٹوں سے زمانے نے چرا کر دیکھا
سیدہ نسرین نقاش
No comments:
Post a Comment