عجب طرح کے ہیں حالات زندگی کے لیے
ہر ایک سانس ہے آمادہ خودکشی کے لیے
لوءیں ہوا کی سیاست کے ساز باز میں ہیں
چراغ خود ہی ترستا ہے روشنی کے لیے
نئے فریب کی معیادِ غم تو ختم کروں
بہت مواد اکٹھا ہے شاعری کے لئے
تمہیں سجانی نئی سیج ہے تو جاؤ نا
میں اپنے آپ میں کافی ہوں* آپ ہی* کے لیے
تعلقات کو شرطوں میں کیوں نبھاؤں میں
انا کو رکھا ہے ہمراہ بے بسی کے لیے
تمہارے ساتھ اکیلی میں جی نہیں پائی
تمہیں ہے جینا تو جی لو نا ہر کسی کے لیے
اسے خبر ہی نہیں میرے عزم کی خوشبو
وہ چاہتا ہے کہ میں سوچوں خود کشی کے لئے
خوشبو پروین
No comments:
Post a Comment