Urdu Deccan

Wednesday, November 30, 2022

سید محمد عبد الغفور شہباز

یوم وفات 30 نومبر 1908

انجام خوشی کا دنیا میں سچ کہتے ہو غم ہوتا ہے 
ثابت ہے گل اور شبنم سے جو ہنستا ہے وہ روتا ہے 

ہم شوق کا نامہ لکھتے ہیں کہ صبر اے دل کیوں روتا ہے 
یہ کیا ترکیب ہے اے ظالم ہم لکھتے ہیں تو دھوتا ہے 

ہے دل اک مرد آخر بیں اپنے اعمال پر روتا ہے 
گر ڈوب کے دیکھو اشک نہیں موتی سے کچھ یہ پروتا ہے 

گھر اس سے عشق کا بنتا ہے دل سختی سے کیوں گھبرائے 
شیریں یہ محل اٹھواتی ہے فرہاد یہ پتھر ڈھوتا ہے 

ٹھکرا کر نعش ہر عیسیٰ کہتا ہے ناز سے ہو برہم 
اٹھ جلد کھڑے ہیں دیر سے ہم کن نیندوں غافل سوتا ہے 

ہم رو رو اشک بہاتے ہیں وہ طوفاں بیٹھے اٹھاتے ہیں 
یوں ہنس ہنس کر فرماتے ہیں کیوں مرد کا نام ڈبوتا ہے 

کیا سنگ دلی ہے الفت میں ہم جس کی جان سے جاتے ہیں 
انجان وہ بن کر کہتا ہے کیوں جان یہ اپنی کھوتا ہے 

لے دے کے سارے عالم میں ہمدرد جو پوچھو اک دل ہے
میں دل کے حال پہ روتا ہوں دل میرے حال پہ روتا ہے 

دکھ درد نے ایسا زار کیا اک گام بھی چلنا دوبھر ہے 
چلئے تو جسم زار اپنا خود راہ میں کانٹے بوتا ہے 

وہ امنگ کہاں وہ شباب کہاں ہوئے دونوں نذر عشق مژہ 
پوچھو مت عالم دل کا مرے نشتر سا کوئی چبھوتا ہے

سید محمد عبد الغفور شہباز


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...