اب حقیقت بھی خواب کی سی ہے
یہ محبت سراب کی سی ہے
پار ہو جائے، گر توازن ہو
زندگی اک طناب کی سی ہے
زخمِ دل طول دے گیا ورنہ
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
ہو گئے واصلِ جہنم ہم
تیری فرقت عذاب کی سی ہے
آدمی بھی نہیں ہو تم لیکن
شان عزت مآب کی سی ہے
ہے سراپا سرِ ورق فائز
زیست اس کی کتاب کی سی ہے
No comments:
Post a Comment