دیجئے کچھ تو اس کی وفا کا صلہ ، کچھ تو رکھئے بھرم پیار کے ہاتھ کا
جانے اس رات کی صبح ہو یا نہ ہو ، خط نہ ٹھکرائیے یار کے ہاتھ کا
کھا کے پتھر بھی منصور ہنستا رہا ، پھول مرشد نے پھینکا تو وہ رو پڑا
کیوں کہ پتھر تو نادان ہاتھوں کے تھے ، پھول تھا اک سمجھ دار کے ہاتھ کا
کیا ہوا جو مجھے جان دینی پڑی ، ان کے ہاتھوں کی سرخی تو کچھ بڑھ گئی
خون دل بھی مرا دے رہا ہے صدا ، رنگ اترے نہ دل دار کے ہاتھ کا
اب کے شیریں پہ کیسے غزل ہم کہیں اور فرہاد کا کیسے نوحہ لکھیں
اس کا جھمکا ہے لوہار کے ہاتھ کا ، اس کا تیشہ ہے سونار کے ہاتھ کا
دور حاضر یہ کہتا ہے او بے خبر ! سوچ اجلی ہو اور بات ہو پر اثر
تاج کے حسن کا ذکر چھیڑوں گا میں ، حشر تو سوچ معمار کے ہاتھ کا
کیا خبر وہ تھی افواہ یا تھی وبا ، شہر سنسان بازار ویران تھا
کچھ مسیحا تھے زیر علاج ان دنوں ، اور نسخہ تھا بیمار کے ہاتھ کا
مونگ سینے پہ بنگالیوں کے دلیں اے شفیق آپ دشمن سے جاکر کہیں
دیکھ ! زنداں کا در کیسا وا ہو گیا ، معجزہ دیکھ فن کار کے ہاتھ کا
No comments:
Post a Comment