Urdu Deccan

Tuesday, November 22, 2022

شفیق السلام قاسمی

یوم پیدائش 10 نومبر 1984

دیجئے کچھ تو اس کی وفا کا صلہ ، کچھ تو رکھئے بھرم پیار کے ہاتھ کا
جانے اس رات کی صبح ہو یا نہ ہو ، خط نہ ٹھکرائیے یار کے ہاتھ کا

کھا کے پتھر بھی منصور ہنستا رہا ، پھول مرشد نے پھینکا تو وہ رو پڑا
کیوں کہ پتھر تو نادان ہاتھوں کے تھے ، پھول تھا اک سمجھ دار کے ہاتھ کا

کیا ہوا جو مجھے جان دینی پڑی ، ان کے ہاتھوں کی سرخی تو کچھ بڑھ گئی
خون دل بھی مرا دے رہا ہے صدا ، رنگ اترے نہ دل دار کے ہاتھ کا

اب کے شیریں پہ کیسے غزل ہم کہیں اور فرہاد کا کیسے نوحہ لکھیں
اس کا جھمکا ہے لوہار کے ہاتھ کا ، اس کا تیشہ ہے سونار کے ہاتھ کا

 دور حاضر یہ کہتا ہے او بے خبر ! سوچ اجلی ہو اور بات ہو پر اثر
تاج کے حسن کا ذکر چھیڑوں گا میں ، حشر تو سوچ معمار کے ہاتھ کا

کیا خبر وہ تھی افواہ یا تھی وبا ، شہر سنسان بازار ویران تھا
کچھ مسیحا تھے زیر علاج ان دنوں ، اور نسخہ تھا بیمار کے ہاتھ کا

مونگ سینے پہ بنگالیوں کے دلیں اے شفیق آپ دشمن سے جاکر کہیں
دیکھ ! زنداں کا در کیسا وا ہو گیا ، معجزہ دیکھ فن کار کے ہاتھ کا

شفیق السلام قاسمی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...