Urdu Deccan

Thursday, December 22, 2022

راسخ عرفانی

یوم پیدائش 12 دسمبر 1912

میں جنگ جیت کے جبر و انا کی ہار گیا
عدو پہ رحم کا احساس مجھ کو مار گیا

امیر شہر کے عفو و کرم کو کیا کہیے
کھلے وہ لوگ کہ خوف صلیب و دار گیا

غرور کثرت لشکر نہ میرے کام آیا
میں سو رہا تھا کہ شب خوں غنیم مار گیا

مرا نصیب کہ بکھری تھی ڈال ڈال مری
کوئی خزاں کا بگولا مجھے سنوار گیا

صدی کی رات گزاری امید کے بل پر
بجھا چراغ سحر کرب انتظار گیا

کسی نے چاپ بھی جاتے ہوئے نہ اس کی سنی
جو شخص برسوں ترے شہر میں گزار گیا

شب فراق کے دریا میں کود کر راسخؔ
تمام قرض وفا کے کوئی اتار گیا

راسخ عرفانی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...