کچھ اس طرح وہ دعا و سلام کر کے گیا
مری طرف ہی رخ انتقام کر کے گیا
جہاں میں آیا تھا انساں محبتیں کرنے
جو کام کرنا نہیں تھا وہ کام کر کے گیا
اسیر ہوتے گئے بادل نا خواستہ لوگ
غلام کرنا تھا اس نے غلام کر کے گیا
جو درد سوئے ہوئے تھے وہ ہو گئے بیدار
یہ معجزہ بھی مرا خوش خرام کر کے گیا
ہے زندگی بھی وہی جو ہو دوسروں کے لئے
وہ محترم ہوا جو احترام کر کے گیا
یہ سرزمیں ہے جلال و جمال و عظمت کی
ہے خوش نصیب یہاں جو قیام کر کے گیا
اثر ہوا نہ ہوا بزم پر علی یاسرؔ
کلام کرنا تھا میں نے کلام کر کے گیا
علی یاسر
No comments:
Post a Comment