ہوا کا رخ بدلنا چاہتا ہے
یہ دل طوفاں میں ڈھلنا چاہتا ہے
نگاہیں ان سے محوِ گفتگو ہیں
اک افسانہ مچلنا چاہتا ہے
کشش کیسی چراغوں میں نہاں ہے
ہر اک پر وانہ چلنا چاہتا ہے
کسی کے غم کی دل کو جستجو ہے
یہ پتھر بھی پگھلنا چاہتا ہے
زمیں آنکھووں کی پُرنم ہورہی ہے
کوئی چشمہ ابلنا چاہتا ہے
یہ دل ناداں نہیں تو اور کیا ہے
محبت میں سنبھلنا چاہتا ہے
غزل کہتے ہوئے اطہر کا دل بھی
نئی راہوں پہ چلنا چاہتا ہے
No comments:
Post a Comment