یُوں سناں کی نوک پر ہے ایک سر رکھّا ہُوا
جس طرح سُورج ہو کوئی بام پر رکھّا ہُوا
ہے عجب ہی شخص وہ دُشمن سمجھتا ہے اُسے
جس کے ہاتھوں میں ہے کوئی بھی ہُنر رکھّا ہُوا
قدغنیں اُس نے لگا رکھّیں ہیں اپنے شہر میں
اِس طرح ہے اُس نے خُود کو معتبر رکھّا ہُوا
ساحلوں پر منتظر لوگوں نے جانے کِس لیے
باندھ کر ہے میرے پاؤں سے بھنور رکھّا ہُوا
مت سمجھ ٹھہرے ہُوئے پانی کو اِتنا پُر سکوں
اِس کی خاموشی میں بھی ہے شوروشر رکھّا ہُوا
اُس کا چہرہ ہے چھُپا کالی گھٹا کی اوٹ میں
یا سیاہ زُلفوں میں ہے کوئی قمر رکھّا ہُوا
وہ مِرے دِل سے کبھی بھی محو ہو سکتا نہیں
میں نے اُس کی یاد کو ہے ہمسفر رکھّا ہُوا
جانتا ہے پتھّروں کے شہر کا باسی ہے وہ
پھر بھی انورؔ اُس نے ہے شیشے کا گھر رکھّا ہُوا
No comments:
Post a Comment