سفر طویل ہے اور پھر سفر میں تنہائی
پلٹ بھی جائوں تو دیکھوں گا گھر میں تنہائی
وہ میرے ساتھ نہیں ہے بہت اداس ہوں میں
جھلک رہی ہے مری چشمِ تر میں تنہائی
ہیں پرسکوت پرندے اداس شاخوں پر
سحر کا وقت ہے اور ہے شجر میں تنہائی
اگرچہ محفلِ یاراں بھی ہے عزیز مجھے
مگر ہے قیمتی میری نظر میں تنہائی
سفر میں راہ بھٹکنے کا مجھ کو خوف نہیں
کہ میں نے باندھ لی رختِ سفر میں تنہائی
کوئی بھی وقت ہو اس کا مزاج ایک سا ہے
دھندلکی شام میں یا دوپہر میں تنہائی
یہ شہر چھوڑ بھی دوں تو مجھے یقیں ہے سہیل
ملے گی پھر مجھے اگلے نگر میں تنہائی
No comments:
Post a Comment